Story Form Nolet " Saugat" .
- Hashtag Kalakar
- Dec 3
- 21 min read
By Rumani Tarannum Mushtaq Ahmed
مناجات
ترے رحم کا ہر لمحہ نزول ہو میری گزارشیں ساری قبول ہو
میرےعمل میں تیراد خول ہو نیک مرے سارے اصول ہو
میری زیست منشاء رسول ہو ساری رحمتیں مجھے وصول ہو
التماسِ ترنّم میرا مقبول ہو سارے جذبوں کا حصول ہو
ناولٹ سوغات تحریر ( روما نی ترنّم مشتاق احمد )
علینہ آئی سی یو کے بیڈ پر زندگی سے دور جاتی اور موت کے قریب ہوتی جا رہی تھی۔ ڈاکٹر نے کہا اگلے چوبیس گھنٹے بہت مشکل ہیں ۔ اُس نے شاید پہلی مرتبہ ڈرگس لی تھی اور مقدار زیادہ ہو گئی جس سے اسکے جان پر بن گئی۔ علینہ اور ڈرگس عالیہ اور عظیم خان بیٹی کے اس حال سے بے حال ہو گئے تھے اور دُعا کر رہے تھے کہ چوبیس گھنٹے خیریت سے گزر جائیں اور وہ زندگی کی طرف لوٹ آئے ۔ اب صرف بیٹی بچی تھی بیٹے کو ابھی ان لوگوں نے ہفتے بھر پہلے ہی دفن کیا تھا اب بیٹی بھی اُسی دہانے پر کھڑی تھی۔ آئی سی یو کے باہر عالیہ اپنا محاسبہ کر رہی تھی کہ اپنی بیٹی کو اس حال میں پہنچانے میں کہیں نہ کہیں وہ ہی ذمہ دار تھی ۔ یہ احساس جرم اُسے مارے ڈال رہا تھا۔ زندگی میں کچھ فیصلے اور کچھ سمجھوتے وقت رہتے کر لینے چاہیے تاکہ زندگی ناقابل تلافی مقام پر نہ لے جائے ۔ وہ سوچنے لگے کہ کہاں اُس نے غلطی کی تھی جسکی وجہ سے وہ اس مقام پر کھڑی ہے جہاں سے نجات اور زندگی کا کوئی راستہ نظر ہی نہیں آرہا ہے ۔ اُسے آج بھی وہ سہانے دن یاد ہے جب زندگی خوشگوار اور آسودہ تھی۔
اپنے عزیز شوہر دو بچے ایک بیٹا ساجد اور بیٹی علینہ ، والدین کی طرح پیار کرنے والے ساس ، سُسر ایک دین دار اور خوشحال گھرانہ جس میں بیٹا اور بیٹی میں کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ دونوں بچوں کو یکساں محبت ، پرورش اور موقع ملے ۔ ساجد ،علینہ سے چار سال بڑا تھا ۔ بے حد ذہین اور نیک بچہ تھا۔جب علینہ بارہویں میں کامیاب ہوئی تب ساجدا اپنی گریجویشن مکمل کر چکا تھا۔ اور اپنے والد کے ساتھ کاروبار میں شامل ہونا چاہتا تھا ۔ اسکے والد کی بھی یہی خواہش تھی لیکن عالیہ نے ساجد کے لئے بیرون ملک میں اعلیٰ تعلیم کے سپنے دیکھے اور وہ بضد تھی کہ اسکا بیٹا امریکہ جا کر تعلیم حاصل کی بلکہ کرنے اور پھر واپس آکر بزنس میں شریک ہو جائے جب کے باپ اور بیٹا دونوں ہی نہیں چاہ رہے تھے ۔ دادا، دادی بھی اس فیصلے سے کچھ خاص خوش نہیں تھے ۔ بس خوش تھے تو ماں بیٹی عالیہ اور علینہ ، بلکہ علینہ کی خواہش تھی کہ بارہویں مکمل کر کے وہ بھی بھائی کے پاس امریکہ چلی جائے گی۔ پہلی مرتبہ عالیہ بضد تھی اور اپنے شوہر سے اختلاف بھی رکھ رہی تھی - عظیم خان بیوی کی اس ضد کو سمجھ نہیں پا رہے تھے ۔ وہ ملک اور عالمی سطح پر ہو رہی سیاسی ہلچل ، اسلاموفوبیا کی وجہ سے یوروپی ممالک میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی کہانیاں روز ہی سن رہیں ہیں اور فلسطین کے حالات سے تو سب واقف ہی ہیں ایسے ماحول میں جوان بیٹے کو بھیجنا انھیں خوفزدہ کر رہا تھا جہاں نو جوانوں کے بہکنے کے لئے ہزاروں وجوہات قدم قدم پر موجود تھی۔ ساتھ ہی کسی سیاسی سازش کے شکار ہونے کا خطرہ بھی تھا ۔ خود غرضی اور نا انصافی نے ملک کو ہی نہیں بیرون ملک، بلکہ سارے عالم کو جکڑ رکھا ہے ایسے ماحول میں والدین کے سائے سے دور، ان کی صلاح اور تربیت کے بغیر کیا تعلیم حاصل کر پائے گا ؟ اعلیٰ تعلیم تو یہاں بھی حاصل کی جا سکتی تھی ، اخراجات تو کبھی بھی عظیم خان کے لئے مسئلہ تھے ہی نہیں۔ بس وہ تو اپنے جوان بیٹے کو اس بھنور میں ڈھکیلنے سے ڈر رہے تھے۔ اور بیوی ہے کہ مان ہی نہیں رہی تھی ۔ آج تک عالیہ نے کبھی ضد نہیں کی تھی پر اس بار نہ جانے کیوں وہ اڑی ہوئی تھی اور آخر میں جیت بھی گئی ساجد اور عظیم خان کو اسکی بات ماننی پڑی اور ساجد بیرون ملک تین سالوں کے لئے فرینکلین یونیورسٹی سوئز لینڈ روانہ ہو گیا ۔ پہلے دو سال ساجد اپنے ہندوستانی اور دینی سانچے میں ہی رہا لیکن تیسرا سال آتے آتے اسے بھی سوئزلینڈ کی ہوا لگ ہی گئی۔ ساجد جو پابندی سے کال کرتا ،اپنی تعلیمی سرگرمیوں کی اطلاع دیتا اپنے احوال سناتا والدین اور دادا، دادی کی خبرگیری کرتا ۔ چھوٹی بہن کی فکر کرتا ، وہ ساجد اب بدلنے لگا تھا۔ تعلیم سے لا پراہ اور بے فکر ہو گیا تھا ۔ بری سنگت میں پڑ گیا ۔ دینی تعلیم اور اپنے والدین کی پرورش بھول گیا، فون ہی نہیں کرتا اور اگر کبھی کرتا بھی تو بس چند منٹوں میں ختم کر دیتا اور زیادہ تر صرف پیسوں کے لئے ہی فون کرتا اُسکے اخراجات بڑھ گئے ، جسکی وجہ وہ تو پڑھائی بتاتا مگر اسی وقت یونیورسٹی سے میل ملا کر وہ کلاسس ہی اٹینڈ نہیں کر رہا، چوتھے سیمسٹر میں فیل ہو گیا ہے ۔ یہ سن کر عالیہ بے چین ہو گئی اور اپنے فیصلے پر پچھتانے بھی لگی پر جو نقصان ہونا تھا ہو چکا۔ شوہر کے سامنے شرمندہ تھی۔ بیٹے کے معاملے میں اسنے جو ضد کی تھی اب وہی ضد علینہ کر رہی تھی اب وہ علینہ کو نہیں بھیجنا چاہتی تھی لیکن علینہ کو کنٹرول کرنا اسکے بس میں نہیں رہا۔ بھائی کی طرح باہر جانے کے سپنے دیکھتی۔ علینہ ابھی ہی کافی حد تک بے باک ہو چکی تھی اور ضدی بھی عالیہ نے علینہ کو سختی سے باہر بھیجنے سے منع کر دیا تھا وہ بیٹے کے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد اب بیٹی کو کھونا نہیں چاہتی تھی پر وہ کسی طرح قابو میں نہیں آرہی تھی ۔ بغاوت پر آمادہ تھی۔ وہاں سوئرلینڈ میں ساجد کلب ، نشۂ لڑکیاں ، ان سے ناجائز تعلقات ان سب چکروں میں پڑ گیا۔ ایک روز سوئز لینڈ سے فون آیا کہ نشے کی حالت میں چند آوارہ لڑکوں کےساتھ جھگڑے میں اسے گولی لگی اور وہ زندگی اور موت کے بیچ کھڑا تھا ۔ یہ خبر عظیم خان کے لئے کسی زلزلے سے کم نہ تھی وہ نڈھال اور لڑکھڑاتے قدموں سے اپنے بیٹے کے پاس سوئز لینڈ پہنچے لیکن تب تک ساجد زندگی کی جنگ ہار چکا تھا۔ اڈھیر عمر باپ ، جوان بچے کی لاش کے ساتھ وطن واپس آیا۔ یہ سو ہان روح منظر بوڑھے دادا کے لئے جان لیوا ثابت ہوا اور انھوں نے بھی پوتے کے ساتھ ہی رخصت سفر باندھا ۔
عالیہ میڈیم ، عالیہ میڈیم - عا لیہ بیگم اپنی خیالوں کی دنیا سےباہر آئی۔ جی ڈاکٹر ،اب آپ کی بیٹی خطرے سے باہر ہے ایک دو دن آبزرویشن Observation میں رکھیں گے سب نارمل رہا تو پھر آپ اُسے گھر لے جا سکتی ہیں عالیہ نے شکر کی سانس لی اور سب سے پہلے اپنے رب کے آگے سجدہ ریز ہوگئی اور اپنی غلطیوں کی معافی مانگنے لگی ۔ وہ اپنے شوہر کے سامنے بھی شرمندہ تھی۔ اور اب دوسری تباہی کے خوف سے لرزاں تھی۔ بیٹے کی طرح بیٹی کو کھونا نہیں چاہتی تھی مگر وقت اور حالات اسکی پکڑ سے باہر تھے کوئی راستہ نہیں سوجھ رہا تھا۔ بیٹی خطرے سے باہر میں ہے یہ خبر عظیم خان کے لئے راحت بھری تھی ورنہ وہ جب سے ۔ باپ اور بیٹے کو دفن کر کے لوٹے تھے تب سے وہ بھی کسی لاش سے کم نہ تھے ۔ وہ سوچنے گئے لگے تھے کہ کیا قصور ہوا کہ ان کاہنستا کھیلتا گھر یوں تباہی کے دہانے پر آکھڑا ہوا ہے۔ وہ اُس پل کو کوس رہے تھے جب انھوں نے بیوی کی ضد کے آگے ہار مانی ۔ وہ سمجھ گئےتھے کہ اپنے وطن ، اپنی مٹی اور اپنے رب سے دور ہونے کے بعد انسان کہیں کا نہیں رہتا ۔ جڑوں سے الگ ہونے والا پیڑ کبھی بھی پھلتا پھولتا نہیں ۔ یہ سب سوچ رہے تھے تب ان کی آنکھوں کے سامنے قبرستان میں موجود ایک نوجوان آیا جو ساجد اور ابّا کی تدفین کے سارے انتظامات بڑی مہارت اور پھرتی سے کر رہا تھا ۔ یہ راحیل تھا انکے چچا زاد بھائی کا بیٹااور گاؤں میں انکے پڑوس کی فیملی تھی۔ راحیل ایگری کلچر میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد گاؤں ہی میں اپنے کھیتوں کی دیکھ ریکھ کر رہا تھا ۔ اچھےخاصےزمیندار گھرانہ کا پڑھا لکھا نوجوان بے حد سلیقہ مند ، دین دار اور زمین سے جڑا انھیں بے حد بھایا تھا ۔ساتھ ہی ساجد کی یاد نے انھیں اپنی کم مائیگی کا احساس دلایا۔ اچانک ان کے ذہن میں ایک ترکیب آئی جسکے تحت انھوں نے گاؤں میں اپنے بھائی کو فون کیا اُس سے بات کی اور ایک پلان بنایا ۔ گاؤں میں اپنے بھائی اور راحیل سے بات کر نکے بعد انھیں بڑی راحت محسوس ہوئی ۔ اور اگلی صبح سے ہی انھوں اپنے پلان پر عمل کرنا شروع کیا ۔
اب موت کا سانحہ گزرے پندرہ روز بیت گئے اب علینہ نے صحت یاب ہونے کے بعد پھر سے بیرون ملک جانے کی ضد لگا رکھی تھی۔ وہ یہی پر پڑھائی نہیں کر رہی تھی ، لاپرواہی برت رہی تھی۔ سارا وقت گھومنے پھرنے میں لگی رہتی وہ باہر جا کر کیا کرنے والی تھی یہ عالیہ اور عظیم خان دونوں جانتے تھے- امی مجھے باہر جانا ہی ہے، میں یہاں نہیں رہنا چاہتی بس آپ جلد سے جلد میرے جانے کا انتظام کروا دیں ۔ عظیم خان یہ بحث سن رہے تھے ۔ وہ سوچ رہے تھے کہ کسے دوش دیں بیوی کو ، خود کو، یا حالات کو ، جو بچا ہے اُسے بچانا ہے ۔ بیٹے کی موت سے عظیم خان اپنی عمر سے دس برس پہلے بوڑھے ہو گئے۔ وہ تھکنے لگے تھے کا روبار میں ہاتھ بٹانے والا جو ان سہارا چلا گیا تھا۔ ذہنی اور جسمانی کمزوری کا شکار ہو گئے تھے۔ وہ سمجھ نہیں پارہے تھے کہ اب بیٹی کو کس طرح بچائیں ،اگر سختی کی تو وہ اور بھی باغی ہو جائے گی انھیں سچویشن کو حکمت سے سنمبھا لنا ہوگا ۔ اگلی صبح عظیم خان ایک نئے عزم کے ساتھ اٹھے ۔ وہ جانتے تھے کہ جب ندی کی دھارا طوفانی رخ اختیار کرے تو بتا ہی سے بچنے کے لئے دھارا کا رخ موڑنا بہتر ہوتا ہے تا کہ تباہی کے بہاؤ کو روکا جاسکے۔ جسکے لئے ان کا سب سے پہلا قدم تھااپنے رب کے آگے سجدہؔ ندامت وہ دُعا گو تھے ۔
گر جیون کی راہ ہو کٹھن عزمِ مصّم ہو میرا مسکن
ندامت کے اشکوں سے سدا سرنِگوں ہو میرا دشمن
نیک جذبوں کی تپش سے صدائے نیک ہو میرا سخن
درد ،دلوں سے دور ہو خوشی سے پُر ہومیر ا دامن
گونجتا ہرسو رحمتوں کا تؔرنّم شاد و آباد رہے میرا گلشن
ایسا ہی پچھتاوا اور احساسِ ندامت انھوں نے عالیہ کی آنکھوں میں بھی دیکھا تھا - اسے مزید شرمندہ کرنے کے بجائے انہوں نے خاموشی اختیار کی اور کچھ سوچ کر گاؤں میں فون کیا ۔ راحیل اور اپنے بھائی کو بتایا کہ منصوبے پر عمل کرنے کا وقت آگیا ۔
اگلی صبح ناشتے کی میز پر عظیم خان نے علینہ کو باہر بھیجنے پر رضا مندی کا اظہار کیا۔ علینہ بہت خوش ہو گئی ۔ بابا میں جلد سے جلد جانا چاہتی ہوں ۔ ہاں بیٹا میں تمہیں بھیجنے کی تیاریاں کرتا ہوں لیکن میری ایک شرط ہے ۔ وہ کیا بابا ؟گاؤں میں ہماری ایک گھریلو مسالوں کی فیکٹری ہے جو تمہارے دادا نے شروع کی تھی۔ پر اب وہ خسارے میں ہے اگلے چھ مہینوں میں تمہیں اُسے منافع کی طرف لانا ہے۔ اگر تم نے یہ کام کیا تو تم بیرون ملک جا سکتی ہو۔ پہلے تو وہ ناراض ہوئی مگر پھر مان گئی ۔ اور بابا کی بات کو چلینج کی طرح قبول کیا اگلے ہی دن دادی کے ساتھ گاؤں آگئی۔ گاؤں کی فیکٹری بے تو جہی کا شکار تھی مگر اب اس کم لاگت والی مسالوں کی فیکڑی کو تیز رفتار عطا کر کے علینہ کو اسے منافع بخش بنانا تھاجو اسکے بیرون ملک جانے کا ویزا تھا۔
گاؤں کی زندگی شہری زندگی سے بالکل مختلف تھی ، وہ بہت سالوں بعد گاؤں آئی تھی اسکی یادوں اور تصّور میں بسا گاؤں اب کافی ترقی یافتہ ہو چکا تھا ۔ بجلی ، فون، موبائیل انٹرنیٹ سب کچھ تھا شہر جتنا فل اسپیڈ نہیں پر سب کچھ تھا ضرور ۔ گاؤں میں اسے پہلی سب سے اچھی چیز جو لگی، وہ اسکا گاؤں کا گھر تھا، بڑا کشادہ کُھلا کُھلا ۔ شہر کے اُس ٹیریس اپارٹمنٹ سے بھی زیادہ خوبصورت ،آنگن ، باغیچہ، اوپر کی برساتی سب بہت پسند آیا ۔ اگلے دن صبح صبح وہ فیکٹری چلی گئی وہاں کے انچا رج سے ملی فیکٹری میں بننے والے مسالے ۔ مشینیں، کچا مال ،انکی ذخیرہ اندوزی ، پیکیجنگ و غیره سب کا اچھی طرح معائنہ کیا ۔ فیکٹری کے آس پاس کافی زمین تھی جو دادا کی تھی۔ وہ سارے حساب کتاب کے کھاتے ساتھ لئے ہوئے گھر آئی تو دوپہر ہو گئی تھی اُسے وقت بیتنے کا پتہ ہی نہیں چلا ۔ نہ کوئی گھومنا پھرنا ۔ نہ پارٹی نہ آؤٹنگ کچھ بھی یاد نہیں رہا۔ گھر پہنچ کر کھانا کھا یا سادہ مگر بے حد لذیذ کھانا تھا اپنی خوراک سے کچھ زیادہ ہی کھا لیا تھا ۔ آج اُس نے معمول سے زیادہ کام کیا ، صبح جلد بیدار ہوئی تھی ، اس پرپیٹ بھر کھاناان سب نے اُسے نیند کی وادی میں پہنچا دیا ۔
عصر کے قریب آنگن میں ہونے والے شور سے اسکی نیند کُھلی ۔ باہر آکر دیکھا تو دادی کے پاس گاؤں کی عورتوں کا میلہ لگا تھا سب دادی کو گھیرے بیٹھی تھی ۔ وہ تمام عورتیں دادی اور اسکی تعزیت کے لئے اکٹھا ہوئیں تھی ۔ پچھلے سال تک جب دادا، دادی گاؤں میں ہی رہتے تھے تو وہ اُن لوگوں کی مالی اور اخلاقی مدد کر دیا کرتے تھے ان سب باتوں کو وہ لوگ یاد کر رہے تھے۔ دادی سب کی فرداً فرداً خیر خیریت دریافت کرنے لگی ہر کوئی دادی کو اپنی خوشیاں، پریشانیاں ، مسؔلے بتانے لگے ۔ دادی نے کچھ مسؔلے تو فورا حل کر دیے اور کچھ بعد کے لئے اٹھا رکھے ۔ وہ حیرت سے دادی کو دیکھ رہی تھی ۔ جسےشہر میں اُس نے اپنے کمرے میں بس نماز، قرآن پڑھتے، دادا کے ساتھ باتیں کرتے کبھی کبھار امّی کے ساتھ کچن میں کچھ کرتےدیکھا تھا اب وہی دادی یہاں پر کسی کلکٹر کی طرح مسؔلوں کو حل کر رہی تھیں۔ پہلی مرتبہ دادی اُسے کسی اونچے عہدے پر فائز افسر جیسی لگی۔ آج اسکی آنکھوں میں دادی کے لئے الگ ہی احترام تھا۔ آہستہ آہستہ محفل برخاست ہوئی ، تب دادی نے بتایا کہ رات کے کھانے پر وہ لوگ پڑوس میں اسکے تایا کے یہاں مدعو ہیں ۔
دادی نے بتایا تایا ، تائی انکے دو بچےّ را حیل اور نوشین انکے رشتے دار اور پڑوسی ہیں ۔ رات کو جب وہ اور دادی انکے گھر میں داخل ہوئے تو ایک بار پھر کھانے کی خوشبو نے علینہ کی بھوک بڑھا دی۔ واہ ادا دی کیا خوشبو ہے۔ یہاں کے لوگ بڑے مزے کا کھانا بناتے ہیں۔ دادی نے بھی فخر سے کہا ارے یہ سب ہمارے فیکٹری کے مسالوں کا کمال ہے۔ گھر میں داخل ہوئے تو علینہ نے دیکھا گھر بہت خوبصورت ہے۔ قیمتی مگر روایتی فرنیچرسے آراستہ رہنے والوں کے اعلیٰ ذوق اور امارت کی داستان بیان کر رہا تھا ۔علینہ کافی متاثر تھی ۔وہ ایک ہی دن میں جان گئی کہ اسکے تصّور میں بسا گاؤں اور حقیقت والا گاؤں بے حد مختلف ہے۔ بلکہ مان چکی تھی کہ حقیقت ، تصور سے بہت زیادہ خوبصورت ہے ۔ اتنے میں تائی اور انکی بیٹی نو شین انکے استقبال کے لئے کچن سے باہر آئی دونوں پسینہ پسینہ تھی۔ کچن میں ماں کا ہاتھ بٹاتی نوشین بے حد خوبصورت اور خوش اخلاق تھی۔ دونوں ماں بیٹی نے بڑے تپاک سے ان کا خیر مقدم کیا خاص کر علینہ کا جو پہلی مرتبہ انکے گھر، بلکہ گاؤں آئی تھی۔ اتنی گرمجوشی علینہ کو شرمندہ کر گئی۔ اس نے کبھی کسی مہمان کی اسطرح پذیرائی نہیں کی تھی۔ وہ لوگ گپ شپ کرتے رہے کہ تھوڑی دیر بعد تایا اور را حیل بھی آگئے۔ راحیل کھیتوں پر سے لوٹا تھا دھول مٹی سے اَٹے ہاتھ پیر اور کپڑے دیکھ کر علینہ دکھ سے سوچنے لگی کہ اتنا ہینڈ سم بندہ یوں مزدوری کر رہا ہے۔ اگر شہر میں پلا بڑھا ہوتا تو پڑھ لکھ کر کسی بڑی کمپنی میں کسی بڑی پوسٹ پر فائز ہوتا ۔ اے سی کمرے میں شان سے بیٹھنے والی شخصیت یوں کھیتوں میں خوار نہ ہو رہی ہوتی ۔ -تب ہی عشاء کی اذان ہوئی باپ بیٹے مسجد میں نماز پڑھنے چلے گئے۔ یہاں گھر پر بھی علینہ کو چھوڑ تینوں خواتین نے نماز ادا کی۔ پھر سب نے مل کر کھانا کھایا۔کھانا بے حد لذیذ تھا ۔انواع واقسام کے کھانے سے سجی میز پر باتیں بھی ہو رہی تھی۔ باتوں کے دوران علینہ پر حیرت کے اور بھی پہاڑ ٹوٹے جب اسنے جانا کہ کچن میں ماں کا ہاتھ بٹانے والی نوشین گاؤں کے اسپتال کی ماہر گائنکو لوجیسٹ ہے۔ اور دھول مٹی سے اٹا ہوا نوجوان ایگری کلچر میں ماسٹر کی ڈگری رکھتا ہے ،کئی زمینوں کا مالک ہے اور ایک بڑا کاروبار چلا رہا ہے۔ اب اُن سب میں وہ خود کو بہت معمولی محسوس کر رہی تھی ۔ دو دن میں ہی اسکا مارڈن کلچرڈ شہری ہونے کا سارا گھمنڈ چکنا چور ہو گیا ۔ اب خود کو ثابت کرنے کی ضد اور بھی پکی ہو گئی۔
اگلی صبح فیکٹری پہنچی ، معائنہ کیا تو دیکھا کہ کھیتوں سے پیدا ہوئے ثابت مسالے گودام میں پڑے پڑے خراب ہو رہے ہیں ۔ بغیر مالک کے ملازم بڑی لاپرواہی برت رہے ہیں۔ مسالوں کو پیسنے والی مشینوں کے ملازم کام چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ مسالوں کی پیکنگ بھی ٹھیک طرح سے نہیں ہو رہی۔ پوڈر مسالے صحیح طرح سے اسٹور نہیں ہو رہے۔ مختصراً یہ کہ فیکٹری میں مال تو ہے پر لا پرواہی اور بے تو جہی کا شکار ہے ۔ مزدوروں کی کمی کو پورا کرنا بڑا مشکل مرحلہ ہے ۔ باہر سے مزدور منگائے گئے تو خرچ بڑھ جائے گا تو لاگت بڑھے گی ، پھر قیمت بڑھے گی ۔ بکری کم ہوگی تو خسارہ بڑھے گا فوری طور پر مسئلے کا کوئی حل سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔ وہ سارے ریکارڈ کی فائلیں لیے گھر آگئی ۔
عصر کے وقت دوبارہ دادی کے پاس عورتوں کی وہی محفل ،انکے مسائل وہیں قریب بیٹھی علیہ سب سن رہی تھی کسی کے گھر کی مرمت ، کسی کے بیٹی کی شادی - کسی کے شوہر کی کم آمدنی یہ ساری باتیں سنتے سنتے اچانک وہ اچھل پڑی اُسے فیکٹری کے لئے مزدور مل گئے ۔ اس نے فورا وادی کو الگ سے بلا کر کہا کہ فیکٹری کو مزدوروں کی ضرورت ہے۔ مسالوں سے دن رات جڑی رہنے والی ان عورتوں سے زیادہ بہتر اور کونسے مزدور ہو سکتے ہیں۔ اس سے فیکٹری کو بھی منافع ہوگا اور ان سب کی پریشانیاں بھی دور ہو جائیں گی ۔ دادی کو بھی یہ ترکیب پسند آئی کہ ایسےروپے پیسوں سے مدد کرنے کے بجائے انھیں کام دے کر عزت سے ملنے والی کمائی کی طرف لانا ان عورتوں کو خود کفیل بنانا سب سے بڑا نیک کام ہوگا۔ دادی نے علینہ کو ہی سب سے بات کرنے کو کہا
علیہ نے سب سے کہا کہ میں آپ سب کی پریشانیاں سن رہی تھی ۔ آپ میری مدد کریں، میں آپ لوگوں کی ۔ اسطرح ہم دونوں کی مشکل آسان ہوگی اور بھر پور فائدہ ہوگا، اور علینہ کی فیکٹری چل پڑی ۔ راحیل نے پیکیجنگ کا سامان، ٹرانسپورٹ ، بہتر اسٹوریج کی سہولت ، ہول سیل اور ریٹیل ڈیلروں سے بات کی ۔سامان وقت پر تیار ہونے لگا دو کانوں میں پہنچنے لگا ۔ اس سارے عمل میں راحیل کا بڑا سہارا رہا اور علینہ راحیل کی قابلیت کی قدرداں ہو گئی ۔اب وہ ہر بات اور ہر کام راحیل سے مشورہ کرکے کرتی تقریبا روز آنہ ہی ملنا جلنا ہوتا ۔ پہلی مرتبہ جب راحیل کو اسکے گھر پر ہی دعوت میں دیکھا تھا تو وہ ہینڈ سم نو جوان اُسے اچھا لگا تھا پر اب تو وہ اسکی گرویدہ ہو گئی تھی ، اُس کا آس پاس ہونا اسے اچھا لگتا ، اکثر وہ اُسے دیکھتی ہی رہ جاتی ۔ حالانکہ وہ کام کے علاوہ اس سے کوئی بات نہیں کرتا ، بڑے ادب اور احترام سے پیش آتا۔ تب وہ اسکا موازنہ اپنے شہری دوستوں سے کرتی وہ کتنے بے باک انداز میں اُس سے ملتے تھے ۔انھوں نے تو اسے دھوکے سے ڈرگس دے موت کے دروازے پر پہنچا دیا تھا۔ کیا دوست ایسے ہوتے ہیں؟اور دوسری طرف یہ راحیل ان سب کے برعکس بڑے تمیز سے پیش آتا ، اسکا خیال بھی رکھتا اور اسکی ہر مشکل بڑی آسانی سے حل کر دیتا ۔ فیکٹری کو چار مہینوں میں ہی وہ لوگ منافع کی طرف لے آئے تھے جس میں راحیل کی بہت بڑی مدد رہی ۔ کیا میں ہر وقت راحیل راحیل سوچ رہی ہوں اتنی متاثر تو میں کبھی کسی سے نہیں ہوتی علینہ خود کو ہی دانٹتی اور اگلے پل پھر راحیل کیا میں اُسے پسند کرنے لگی ہوں ؟ خود سے سوال کرتی، اور جواب سے ڈرتی کہ اگر جواب ہاں ہے تو وہ کیا کرے گی، راحیل تو کام کے علاوہ کچھ نہیں کہتا وہ تو ایکدم سے آنکھ ملا کر بات بھی نہیں کرتا ، پتہ نہیں وہ اسکے بارے میں کیا سو چتا ہو گا؟ کیا اسے اسکا ایک طرح سے سزا کے طور پر گاؤں آنا پتہ ہو گا ؟ کیا وہ اسکی شہری زندگی کے بارے میں جانتا ہوگا ؟ تو پھر وہ اُسے اپنی زندگی میں کیوں قبول کرے گا ؟ ارے یہ سب کیا ہو رہا ہے میں صرف پسند نہیں شاید راحیل سے محبت کرنے لگی ہوں ۔ اب کیا ہوگا ؟ میں اُس سے یا کسی اور سے کیسے اپنے دل کی بات کیوں ؟ ہاں مجھے راحیل سے محبت ہو گئی ہے ۔
تب ہی تو !
تیرا خیال جب بھی آئے تیری خوشبو مجھے مہکائے
تیرا ہونا دل کو بہلائے نین تیرے خواب سجائے
تیرا فراق دل کو تڑپائے تیری یادیں مجھے رلائے
تب ہی تو !
ترا خیال جب بھی آئے تیری خوشبو مجھے مہکائے
میرے حوصلوں کو جگائے میرے جنوں کو بھڑکائے
محبّتوں کاسہانا تعلق بنائے خوابوں کا آسمان سجائے
تب ہی تو !
ترا خیال جب بھی آئے تیری خوشبو مجھے مہکائے
ٹرن ٹرن فون کی گھنٹی کے علینہ کو خوابوں کی دنیا سے واپس لے آئی ۔ ارے میں تو محبت میں شاعری بھی کرنے لگی۔ ہیلوامّی السّلامُ علیکم خیریت؟ آپ نے اتنی رات کو فون کیا؟ ابھی تک سوئی نہیں؟نہیں کل کی تیاری کر رہی ہوں۔ تمھیں یہ بتانے کے لئے فون کیا کہ تمھارے تایا اور تائی کا فون آیا تھا ۔ نوشین کی منگنی دو دن بعد طے ہوئی ہے ۔ انہوں نے ہمیں بلایا ہے۔ تو ہم دونوں کل گاؤں آرہے ہیں ۔ علینہ بہت خوش ہو گئی چار مہینوں بعد وہ اپنے والدین سے ملنے والی تھی۔ اور ِاسی کے ساتھ ہی اُسے اپنی وہ ساری بد تمیزیاں یاد آگئی جو اس نے امی اور بابا کے ساتھ کیں تھیں ، ماں باپ کا دل کتنا بڑا ہوتا ہے انہوں نے بن مانگے اسے معاف کر دیا ۔پچھلے چار مہینوں میں امّی بابا سے فون پر جب بھی بات ہوتی اُسے کبھی نہیں لگا کہ وہ اُس سے ناراض ہے ۔ بلکہ جب سے اس میں مثبت تبدیلی آئی ہے تو وہ اور بھی مہربان ہو گئے ہیں۔ وہ بھی خود میں ہوئی تبدیلیوں پر حیران تھی اکثر وہ انہیں فون کرتی خیریت دریافت کرتی بابا کو اپنے کام کی رپورٹ دیتیں ، اتنا سب تو پچھلے کچھ سالوں میں انکے ساتھ رہتے ہوئے بھی نہیں کرتی تھی ۔ وہ بہت بدل گئی تھی اتنے جلدی اُتنی تبدیلی یہ سب کیا ہے۔ پچھلے چار مہینوں میں نہ اسے کسی سہیلی کی یاد آئی نہ کسی ڈنر پارٹی کی ، نہ کلب کی بلکہ وہ اب کھانا بنانے میں بھی دلچسپی لینے لگی تھی ، نماز پڑھنے لگی تھی ، دادی کے پاس قرآن کا اعادہ کر رہی تھی ۔ گاؤں کی آب و ہوا اسے اچھی طرح راس آگئی تھی۔ مسالوں کے ساتھ ساتھ فیکٹری میں اب اچار، پاپڑ بھی بننے لگے ۔ سلائی کڑا ئی جاننے والی عورتوں کے لئے سلائی کا ایک یو نٹ بھی لگ گیا ۔ جہاں پر چادریں، پردے کشن کور اور دیگر دیکو ریٹیو سامان تیار ہوتا جو آس پاس کے ضلعوں میں بکتا۔گاؤں کی اس فیکٹری میں بننے والی چیزوں کی نمائش لگنابھی شروع ہو گئی۔ جسکی وجہ سے آس پاس کے بہت سارے گاؤوں سے ،قصبوں اور ضلعوں سے لوگ آنے لگے۔ گاؤں کے لوگوں کو بہت سارے روز گار کے موقع ملنے لگے۔ گاؤں کو نام اور شہرت ملنے لگی۔ علینہ نے ساتھ ہی ساتھ اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری کیا،جو شہر میں اسکی بے ڈھب زندگی کی وجہ سے التواء میں پڑاتھا۔ اسکے گاؤں کے قریبی ضلعے میں یونیورسٹی کا سینیٹر تھا جہاں سے اس نے اپنی گر یجویشن فاصلاتی نظام تعلیم پھر سے جاری کی ، کہاں تو وہ بیرون ملک جا کر پڑھائی کرنا چاہ رہی تھی اور اب وہ گاؤں میں پڑھائی کر رہی تھی جو یہ ثابت کرتا ہے کہ علم حاصل کرنے کے لئے جگہ کی کوئی خاص اہمیت نہیں بس پڑھنے کی چاہ ہونی چا ہیے یہ بات علینہ نے ثابت کر دی چونہ وہ اب پڑھائی کی اہمیت سمجھ گئی تھی اسلئے اس نے گاؤں کی عورتوں کے لئے بھی تعلیم کا انتظام گاؤں کی ہی اسکول میں، نائٹ اسکول کے طور پر کرا دیا تا کہ عورتیں کام کرنے کے ساتھ ساتھ پڑھنا لکھنا بھی سیکھ لیں ۔ علنیہ کی ان ساری کوششوں کی وجہ سے گاؤں کی عورتیں اسکا بہت احترام کرتی تھی۔ اپنے دادا دادی کی وراثت وہ بہت اچھی طرح تھا آگے لے جا رہی تھی ۔
اگلی صبح امّی بابا آگئے وہ بہت خوش تھی ان دونوں سے مل کر، امّی اُس کے پسند کے ڈریسں اور دوسری بہت ساری چیزیں لیکر آئیں تھیں۔ وہ دونوں تو اس سے ایسے ملے جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں۔ نوشین کے لئے بھی بہت سارے تحفے بھی لائے تھے۔ شام میں وہ سب تایا کی طرف گئے ۔ وہاں خوشں گپیوں میں مشغول تھے۔ وہ نوشین کو دیکھ رہی تھی اسکی آنکھوں میں خوشی، محبت کا عکس سب کچھ تھا محبت انسان کوبے حد حسین بنا دیتی ہے۔ زندگی میں کتنے رنگ بھر دیتی ہے ۔ نو شین کا منگیتر بھی آنکھوں کے( آئی )سرجن ہے ۔ وہ ساتھ ہی پڑھتے تھے اور وہیں ایکدوسرے کو پسند کرنے لگے تھے۔ پھر تعلیم مکمل کرنے کے بعد اب زندگی کے ہم سفر بننے جا رہے تھے۔ علینہ یہ جان کر بہت خوش ہوئی کہ تا یاتائی محبت کی شادی کے خلاف نہیں تو امید ہے کہ شاید اسکی محبت کے لئے بھی کوئی راہ نکل آئے ۔ امّی بابا نے اسے معاف کر دیا ہے ۔ اب جسطرح اسکی زندگی راہ راست پر آ گئی تو اُسے لگنے لگا تھا کہ ﷲنے بھی اُسے معاف کر دیا ہے ،وہ اپنی اس نئی زندگی کے لئے رب کی شاکر تھی کہ کسطرح بابا کا شرط رکھنا اور اسکا گاؤں آنا اسے اُس غلا ظت بھری دنیا سے نکال کر اس خوبصورت اوربا عزّت دنیا میں لے آیا بس اب راحیل کا ساتھ مل جائے تو رب کی اور بھی شکر گزار ہوگی ۔
چند مہمانوں کی موجودگی میں سادگی سے منگنی کی رسم اداء ہوئی نو شین بے حد حسین لگ رہی تھی۔ علینہ نے بھی بے حد خوبصورت لباس پہنا تھا ۔ راحیل کی نظر یں بھی علینہ کا طواف کر رہی تھی ۔ گاؤں کے ہر گھر میں تایا ابا نے خوب ساری مٹھائی اور تحائف بھیجے۔ سادہ سی رسم اور غریبوں کا خیال تا یا ابّا کے اس عمل سے اُسے بہت احترام محسوس ہوا ۔
منگنی کی رسم سے فارغ ہوئے تو اسی محفل میں شادی کی تاریخ ایک مہینے بعد کی طے ہوئی ۔ خوشی اور جشن کا ماحول تھا ۔
اگلے روز گھر میں سب اسکے گھر میں جمع تھے ۔ خوش گپیاں چل رہی تھی ۔ امّی ابّا دو روز بعدواپس جانے والے تھے تا یاتائی بضد تھے کہ وہ دو نوں شادی سے پندرہ روز پہلے آئیں ۔ وہیں پر اچا نک بابا نے علینہ کو مخاطب کر کے کہا کہ تم نے اپنا مشن چار مہینوں میں ہی مکمل کر لیا ۔ اب باہر جانے کی تیاری کر تو بابا کی اس بات پر پورے ماحول میں خاموشی چھا گئی ۔ علینہ بھی ایکدم سٹپا گئی اور اسکی نظریں فورا ً راحیل کی طرف اٹھ گئی وہ بھی اسکی طرف دیکھ رہا تھا اور انکی نظریں ملیں اور جھک گئی ، علینہ نے فوراً کہہ دیا بابا باہر نہیں جانا بلکہ مجھے اب شہر بھی واپس نہیں جانا میں یہی گاؤں میں دادی کے ساتھ رہوں گی۔ اور فیکٹری کا کام سنبھالوں گی ۔ علینہ کی اس بات پر تائی امی نے بابا سے کہنے لگی بھائی جان اگر آپ کی اجازت ہو تو میں علینہ کی اس خواہش پر اپنی بھی ایک خواہش بتانا چاہتی ہوں۔ ارے بھا بھی آپ کہیئے نہ ، علینہ تم نے اچھی بات کی اگر تم شہر نہیں جانا چاہتیں تو پھر ہمیشہ کے لئے گاؤں میں بس جاؤ میرے گھر میں میرے راحیل کی دلہن بن کے تائی امْی کی بات علینہ کو چند منٹوں بات سمجھ آئی اور وہاں سب کی موجودگی خاص کر را حیل کی موجودگی سے وہ ایکدم شرما گئی انکی نظریں اٹھیں ،ملی اور جھک گئیں ۔ تب . تا یا تائی ،ابا سے کہنے لگے اگر علینہ راضی ہے اور آپ لوگوں کو بھی یہ رشتہ منظور ہے تو ہم اپنے دونوں بچوں کی شادیاں ایک ساتھ ہی کرا دیتے ہیں۔ اب علینہ کے لیے وہاں سے بیٹھنا مشکل تھا وہ اٹھ کر اندر آگئی ۔ اسکا دل بے حد تیزی سے ڈھرک رہا تھا۔ اسکے من کی مراد یوں پوری ہو گئی اُسے اب بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ ﷲ نے راحیل کی سوغات اسکی جھولی میں اتنی آسانی سے ڈال دی۔ وہ فورا اپنے رب کے آگے سجدہ ریز ہو گئی۔ اسکا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا وہ اپنے رب کی شکر گزار تھی کہ نہ صرف اُس نے اُسے معاف کر دیا بلکہ اُسے بے شمار خوشیاں بھی عطا کی اسکی محبت اسے عطا کردی۔
آج ایک مہینے بعد علینہ راحیل کی دلہن بنی عروسی لباس میں سیج پر اسکا انتظار کر رہی تھی۔ اسکا سامنا کرنے کے خیال سے ہی دل کی ڈھرکنیں بے قابو ہو رہی تھیں۔ دروازہ کھلا راحیل کمرے میں داخل ہوا۔ اس سے مخاطب ہوا السّلامُ علیکم علینہ نئی زندگی مبارک ہو۔ آپ کا ساتھ ہے تو زندگی بے حد حسین اور مکمل ہے۔ علینہ حیرت سے راحیل طرف بے اختیا ر دیکھنے لگی ۔ علینہ سوچنے لگی کہ وہ تو خود کو را حیل کے قابل نہیں سمجھ رہی تھی اور راحیل کے خیال میں اسکا ساتھ اسکی زندگی کو حسین اور مکمل بنا رہا ہے اس بات نے اُسے اور معتبر کر دیا ۔ علینہ نے بھی اُس سے اپنے دل کے احساسات کا اظہار کیا ۔ میں تب راحیل نے اُسے کہا یہ تو ہونا ہی تھا۔ ہم سب نے مل کرجو طے کیا تھا ۔ مطلب علینہ حیرانگی سے راحیل کو دیکھنے لگی ۔ مجھے تو تم اس وقت بھا گئی جب تمہیں پہلی مرتبہ دیکھا تھا ساجد اور دادا کے انتقال کے وقت، سادہ سے کپڑوں میں دکھ میں ڈوبی بکھری بکھری سی علینہ اسی وقت میرے دل کو قابو کرگئی اور پھر انکل نے مجھے اور ابا سے بات کی کہ وہ ساجد کو کھونے کے بعد تمھیں نہیں کھو نا چاہتے تھے اسلئے انھوں نے ہمارے ساتھ مل کر یہ پلان بنایا اور تمہیں فیکٹری کا چیلینج دے کر یہاں لایا گیا ۔ اور پھر جو کچھ بھی ہوا تم تو جانتی ہو۔ بس مجھے یہ پتہ نہیں تھا کہ فیکڑی کا یہ چیلینج ہمیں یوں ایک کر دے گا۔ یہ کہہ کر راحیل نے اسکی انگلی میں نازک سی ہیرے کی انگوٹھی پہنائی اور اسکے ہاتھوں پر مہرِ محبّت ثبت کی شرم سے لال ہوتی علینہ کی آنکھوں سے بے اختیار خوشی آنسو نکل آئے ۔علینہ نے بھی راحیل کو ایک رسٹ واچ کا تحفہ دیا ۔ راحیل کی بانہوں میں سمٹی علینہ اپنے رب کے ساتھ ساتھ اپنے بابا کی بھی شکر گزارا تھی کہ انھوں نے بڑی حکمت سے اُسے راحیل کی صورت میں زندگی کا سب سے خوبصورت اورقیمتی سوغات عطا کی۔
By Rumani Tarannum Mushtaq Ahmed

Comments